Saturday, 2024-04-20, 11:42 AM
TEHREER
The Place of Entertainment and knowledge
Welcome Guest | RSS
Site menu
Categories
غزلیات نظمیں
منتخب اشعار قطعات
Quotations انتخاب
Entries archive
Recent Blogs-->
Recent Comments-->
I can only imagine how much research has gone into this. I like your writing skills as it makes one feel included in the journey. Thank you for the valuable notes.I enjoy kinds very own post. It will be respectable to get a single narrative inside and outside of the core of this distinctive core specialized niche will likely be commonly knowledgeable.
https://www.ilmkidunya.com/9th-class/roll-number-slips.aspx

thnx inam

hahahah

Thnx inam

hahah nice

Our poll
Rate my site
Total of answers: 24
Main » 2012 » May » 01
اے دلِ بے قرار، چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدہ اشکبار ! چپ ہو جا
جا چکا ہے کارواں لالہ و گل
اُڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غمگسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ لگ جائے
حسرتِ سوگوار !چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغر
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا

ساغر صدیقی
Category: غزلیات | Views: 609 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

مشکلوں سے اِسے سمبھالا ہے
اِک تیرا غم جو ہم نے پالا ہے

عہد و پیمان توڑ کر سارے
مُجھ کو اُلجھن میں تُو نے ڈالا ہے

مِل گئیں تلخیاں زمانے کی
فِکرِ دُنیا نے روند ڈالا ہے

زندگی کھو گئی اندھیروں میں
کوں جانے کہاں اُجالا ہے

سب سے ملتا ہے مُسکُرا کر تُو
تیرا انداز ہی نرالا ہے

ہونٹ میں نے تو سی لیے ناصر
راز اپنوں نے ہی اُچھالا ہے
Category: غزلیات | Views: 530 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں
مگر یہ بھی تو سوچو
اجنبی کو دوست ہونے میں بھلا کیا دیر لگتی ہے

چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں
مگر سوچو اگر ہم زندگی کے کھیل کے کردار ہیں دونوں
تو ہم کو سامنے آنے پہ آخر کچھ تو کہنا ہے
کوئی دو لفظ ، دو جملے
مگر تم نے تو آنکھیں بند کر لی ہیںلبوں کو سی لیا شاید

چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں
مگر جب شہر اپنی آخری حدیں مٹا ڈالے
تو انسانوں کا اک جنگل جنم لیتا ہے ایسے میں
اور اس جنگل کے آپس میں الجھتے راستوں پر
کئی انسان پھرتے ہیں
جو اتنی بھیڑ میں رہ کر بھی تنہاء ہیں
اور اُن کے پاس اتنا وقت بھی باقی نہیں بچتا
کہ اپنی روح کی سچی طلب پہچان لیں وہ لوگ

چلو مانو کہ تم بھی ایسے ہی جنگل کے باسی ہو
اور اپنی روح کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو
جو اپنی روح کی سچی طلب پہچان جاؤ تو
مجھے پہچان جاؤ گے
یقیناً مان جاؤ گے
کہ آخر اجنبی کو دوست ہونے میں بھلا کیا دیر لگتی ہے ... Read more »
Category: نظمیں | Views: 563 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں
محبّت کی پہلی کڑی ہو گئی ہوں

مجھے تُو نے ایسی نگاہوں سے دیکھا
کہ میں ایک پل میں بڑی ہو گئی ہوں

سر ِشام آنے کا ہے اس کا وعدہ
میں صبح سے در پر کھڑی ہو گئی ہوں

نہ چُھڑوا سکو گے کبھی ہاتھ اپنا
محبّت بھری ہتھکڑی ہو گئی ہوں

بہت دور ہے مجھ سے خوشیوں کا موسم
مُسلسل غموں کی جھڑی ہو گئی ہوں

جُدا کر نہ پائے گا اب کوئی ماہ رُخ
وہ خوشبو ہے میں پنکھڑی ہو گئی ہوں
Category: غزلیات | Views: 551 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندھ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے

راحت اندوری
Category: غزلیات | Views: 566 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

سرراہ اُن سے ہاتھ جو ملایا تھا
وفا بھی شرط تھی یہ کہاں بتایا تھا

ہو کیسے علم اُسے لذت جنوں جس نے
ہنسی مذاق کیا دل نہیں لگایا تھا

جو چھوڑنا تھا تو آس کیوں جگائی تھی
میں سنگ میل تھا کیوں ہمسفر بنایا تھا

یہ کیا خبر تھی کہ ساحل پہ جان جائے گی
جسے مسافر بھنور سے بچا کے لایا تھا

تمہارے بعد میں جیسے کوئی تماشا تھا
کہ سارا شہر مجھے دیکھنے کو آیا تھا

وہ برہمن تھا مجھے بولا کٹا دو ہاتھ اپنے
یا یہ کہو کہ مجھے ہاتھ کیوں دکھایا تھا

میں دل کے زخم گنوں یا گنوں کرم تیرے
سفر تھا رات کا ساتھی نہ کوئی سایہ تھا

میں اُس سے گھر نہ لٹاتا تو اور کیا کرتا
غنیم اب کے مسیحا جو بن کے آیا تھا
Category: غزلیات | Views: 585 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
سہے ہیں اس کے لئے یہ عذاب میں نے بھی

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

دیئے بجھا کے سر ِشام سو گیا تھا وہ
بتائی سو کے شبِ ماہتاب میں نے بھی

یہی نہیں کہ مجھے اس نے دردِ ہجر دیا
جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی

کسی نے خون تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں
لکھی ہے خون ِجگر سے کتاب میں نے بھی

خزاں کا وار بہت کارگر تھا دل پہ مگر
بہت بچا کے رکھا، یہ گلاب میں نے بھی

اعتبار ساجد
Category: غزلیات | Views: 504 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
لوگوں کا اک ہجوم اِدھر ٹوٹ کر گرا

ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے
قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا

ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا
جیسے میری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا

اتنی داستان ہے میرے زوال کی
میں اڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا

وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید
بانہوں میں آ کے وقتِ سحر ٹوٹ کر گرا
Category: غزلیات | Views: 541 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
لوگوں کا اک ہجوم اِدھر ٹوٹ کر گرا

ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے
قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا

ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا
جیسے میری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا

اتنی داستان ہے میرے زوال کی
میں اڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا

وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید
بانہوں میں آ کے وقتِ سحر ٹوٹ کر گرا
Category: غزلیات | Views: 528 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے

ہے ندامت لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے

میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے

میرا خود پر سے اعتماد اٹھا
کتنے وعدے میری اٹھان میں تھے

تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے

واہ! ان بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے

آسمانوں میں گر پڑے یعنی
ہم زمین کی طرف اڑان میں تھے

جون ایلیا
Category: غزلیات | Views: 524 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

دل کسی یارِ باوفا کی طرح
باخبر ہے بہت خدا کی طرح

زندگی بھر تمہارا نام مرے
دل سے نکلا کسی دعا کی طرح

میں نے ہر موڑ پر تجھے ڈھونڈا
ہجر کے شہر کی ہوا کی طرح

عمر بھر تیرا دکھ اُٹھایا ہے
وقت کی دی ہوئی سزا کی طرح

کچھ نہیں سوجھتا محبت میں
خوف اور غم کی انتہا کی طرح

فرحت عباس شاہ
Category: غزلیات | Views: 515 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

نہیں ہوتا نسب محبت میں
کیا عجم ، کیا عرب محبت میں

ہم نے اک زندگی گزاری ہے
تم تو آئے ہو اب محبت میں

اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم
ہو گئے جاں بلب محبت میں

خامشی ہی زبان ہوتی ہے
بولتے کب ہیں لب محبت میں

آگہی کے جہان کھلتے ہیں
چوٹ لگتی ہے جب محبت میں

یہ ہے دشتِ جنوں، یہاں آصف
چاک داماں ہیں سب محبت میں
Category: غزلیات | Views: 552 | Added by: Crescent | Date: 2012-05-01 | Comments (0)

Search
Login In
Recent Posts-->
Popular Threads-->
Recent Photos-->
Poetry blog
Copyright Tehreer © 2024