Skip to main content

Posts

Mere ahbab kehty hain yahi ek aib hy muj mein

Recent posts

گدھا

ایک دن مُلا نصیر الدین اپنے گدھے کو گھر کی چھت پر لے گئے جب نیچے اتارنے لگے تو گدھا نیچے اتر ہی نہیں رہا تھا۔ بہت کوشش کئیے مگر گدھا نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا آخر کار ملا تھک کر خود نیچے آ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ گدھا خود کسی طرح سے نیچے آجاۓ. کچھ دیر گزرنے کے بعد ملا نے محسوس کیا کہ گدھا چھت کو لاتوں سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے. ملا پریشان ہو گئے کہ چھت تو بہت نازک ہے اتنی مضبوط نہیں کہ اس کی لاتوں کو سہہ سکے دوبارہ اوپر بھاگ کر گئے اور گدھے کو نیچے لانے کی کوشش کی لیکن گدھا اپنی ضد پر اٹکا ہوا تھا اور چھت کو توڑنے میں لگا ہوا تھا ملا آخری کوشش کرتے ہوۓ اسے دوبارہ دھکا دے کر سیڑھیوں کی طرف لانے لگے کہ گدھے نے ملا کو لات ماری اور ملا نیچے گر گئے اور پھر چھت کو توڑنے لگا بالآخر چھت ٹوٹ گئی اور گدھا چھت سمیت زمین پر آ گرا. ملا کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتے رہے اور پھر خود سے کہا کہ کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پر نہیں لے جانا چاہئیے ایک تو وہ خود کا نقصان کرتا ہے دوسرا خود اس مقام کو بھی خراب کرتا ہے اور تیسرا اوپر لے جانے والے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے. ہم لوگ نااہل گدھوں کو

Mirza Asad Ullah ghalib

مرزا اسد اللہ خان غالب رحمتہ اللہ علیہ 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔ مرزا غالب کی 13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔ دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری کاانداز منفردتھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔ دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔ غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔ غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں

Biwi se ishq

”بیوی سے عشق کب ھوتا ھے؟؟“ ایک خاتون نے نہایت دلچسپ سوال کیا ، کہنے لگیں ’’تارڑ صاحب میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ ”منہ ول کعبے شریف“ پڑھا ھے جس میں آپ نے اپنی بیگم کا تذکرہ اِس طرح کیا ھے جیسے وہ آپ کی بیوی نہ ھو گرل فرینڈ ھو“ میں نے مسکراتے ھُوئے کہا کہ ، ”خاتون جب میں اپنے سفرناموں میں غیرمنکوحہ خواتین کا تذکرہ کرتا تھا تب بھی لوگوں کو اعتراض ھوتا ھے اور اب اگر اپنی منکوحہ کے ساتھ چہلیں کرتا ھوں تو بھی اعتراض ھوتا ھے۔ اگر آخری عمر میں بالآخر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ھو گیا ھُوں تو بھی آپ کو منظور نہیں“۔ وہ خاتون نہایت پُرمسرت انداز میں کہنے لگیں ”آخری عمر میں ھی کیوں؟“ میں نے انہیں تو جواب نہیں دیا محض مسکرا دیا لیکن میں آپ کو رازداں بناتا ھُوں۔ آخری عمر میں بیوی کے عشق میں مبتلا ھو جانا ایک مجبوری ھے کہ اتنی طویل رفاقت کے بعد آپ کو احساس ھوتا ھے کہ اس بھلی مانس نے مجھ پر بہت احسان کیے۔ میری بے راھرو حیات کو برداشت کیا۔ کبھی شکایت نہ کی البتہ ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بہت کی تو بس یہی عشق میں مبتلا ھونے کے لائق ھے۔ ھمارے ایک دوست کا کہنا ھے کہ ، ”جوانی میں بیوی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، مرد آخر مر

Sach ki talqeen

اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آ گئی. اُس نے اپنا چہرہ میری طرف کیے بغیر نئی روٹی بیلتے ھُوئے پُوچھا" تُو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟" میں نے تڑپ کر کہا ، " میں سچ لکھوں گا اَماں اور سچ کا پرچار کروں گا. لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ھیں اور سچ سننے سے گھبراتے ھیں. میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا. "میری ماں فکر مند سی ھو گئی. اُس نے بڑی دَردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئیلوں پر پڑی ھُوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ھُوئے کہا ،" اگر تُو نے سچ بولنا ھے تو اپنے بارے میں بولنا ، دُوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر اُن کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا. ایسا فعل جُھوٹ سے بھی بُرا ھوتا ھے." "اشفاق احمد" "زاویہ" سے اقتباس

Ek bhori awrat

ایک بوڑھی عورت تھی جو تندور پر روٹیاں پکاتی تھی ایک رات ایسا ہوا کہ  وہ سوئی اور خواب میں اللہ کا دیدار ہو گیا ایک نور چمکا اس نے پوچھا کون فرمایا تمہارا رب ہوں اَسی سال کی بوڑھی منہ میں دانت نہیں اور بال بھی سفید۔۔  پوچھا مانگ کیا مانگتی ہے کہا مجھ جیسی گنہگارہ پہ اتنا کرم کہ رب خواب میں آگیا کیا مانگوں کچھ نہیں چاہئے فرمایا ہم تو کچھ دینگے مانگ۔بولی دینا ہی چاہتا ہے   تواولاد بھی نہیں شادی بھی نہیں ہوئی دولت بھی نہیں چاہیے دن میں دو روٹی کھاتی ہوں تو ہی تو دیتا ہے یہ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی بھی ہے سر چھپا لیتی ہو تو پھر کیا چاہیے لیکن تو بار بار کہہ رہا ہے کہ کیا چاہیے مانگ تو مانگ لیتی ہوں۔ تو بس تم مہمان بن کر آؤ میں تمہارے واسطے روٹی پکاؤگی تم کھاؤ اور چلے جاؤ فرمایا اچھا ہم کل آئیں گے صبح بوڑھی عورت اٹھی پورے گاؤں میں کہتی پھیرے ہمارے گھر تو اللہ آرہے ہیں میں دعوت پکا رہی ہو جو دیکھ کے بولے پاگل ہو گئی ہو تم تندور کی گرمی سر چڑھ گئی ہے بوڑھی ہوگئی ہے پاگل کیسی باتیں کرتی ہے اللّہ آئگا کہاں ذات باری تعالیٰ اس کی مثل نہیں ہے سارے گاؤں کے لوگ بوڑھی کو پاگل پاگل کہنے لگے لیک

ہمہ وقت رنج و ملال کیا، جو گُزر گیا سو گُزر گیا

ہمہ وقت رنج و ملال کیا، جو گُزر گیا سو گُزر گیا اُسے یاد کرکے نہ دل دُکھا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   نہ گِلہ کیا ، نہ خفا ہوئے ، یُو نہی راستے میں جدا ہوئے نہ تُو بے وفا نہ میں بے وفا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   وہ غزل کی ایک کتاب تھا ،وہ گُلوں میں ایک گلاب تھا ذرا دیر کا کوئی خواب تھا، جو گُزر گیا سو گُزر گیا   مُجھے پت جَھڑ کی کہانیاں ، نہ سُنا سُنا کے اُداس کر تو خزاں کا پھول ہے مسکرا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   وہ اُداس دھوپ سمیٹ کر ،کہیں وادیوں میں اُتر چُکا اُسے اب نہ دے میرے دل صدا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   یہ سفر بھی کتنا طویل ہے، یہاں وقت کتنا قلیل ہے کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   وہ وفائیں تھیں کہ جفائیں تھیں، نہ یہ سوچ کس کی خطائیں تھیں وہ تیرا ہے اُس کو گلے لگا،جو گُزر گیا سو گُزر گیا   تجھے اعتبار و یقیں نہیں، نہیں، دنیا اتنی بڑی نہیں نہ ملال کر،میرے ساتھ آ،جو گُزر گیا سو گُزر گیا