Main » 2012 » August » 20
اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئنہ، اسے کیا خبر کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب مری نگاہ دھری رہی سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی وہ جو حرفِ بخت تھا لوحِ جاں پہ لکھا ہوا، نہ مٹا سکے کفِ ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی ترے دشتِ ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے وہی چاک پیرہنی رہا وہی خوئے دربدری رہی وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی خالد علیم
دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں ہم ہیں حصارِ درد میں ، اُس کو خیال بھی نہیں اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جو ہے دھوپ کا یہ جو نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں وہ جو انا پرست ہے ، میں بھی وفا پرست ہوں اُس کی مثال بھی نہیں ، میری مثال بھی نہیں عہدِوصالِ یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑ کنیں موجۂ خون احتیاط! خود کو اُچھال بھی نہیں تم کو زبان دے چکے ، دل کا جہان دے چکے عہدِوفا کو توڑ دیں ، اپنی مجال بھی نہیں اُس سے کہو کہ دو گھڑ ی، ہم سے وہ آملے کبھی مانا! یہ ہے محال پر، اتنا محال بھی نہیں آصف شفیع
کمیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لوں نسبت میری جبیں* کو انہیں پتھروں سے ہے مشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لوں اوڑھے رہوں میں جلتی ہوئی دھوپ کی ردا اور موسموں کے گیت سہانے تراش لوں شبنم سے رہگزارِ سحر کا پتا کروں مٹی سے رنگ و بُو کے خزانے تراش لوں نومید مجھ سے میرا خدا آج بھی نہ ہو زخموں کے خال و خد سے زمانے تراش لوں میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگہ کی ہوں دل کی خوشی کو لاکھ فسانے تراش لوں شام و سحر سے دور زمانہ ملے، تو میں اِس بے قرار جاں کے ٹھکانے تراش لوں اِک خواب اور فصلِ بہاراں کے نام ادا آ کر کہا ہے موجِ ہوا نے تراش لوں ادا جعفری
!لاحاصل مُحبّت! دراصل انسانی وجود کو ایک قبرستان بنا دیتی ہے جس میں وہ اپنی تِشنہ خواہشات اورنامکمل آرزؤں کی قبریں اُٹھائے پھرتا ہے ۔۔ آمنہ ریاض کے ناول ’’مرگِ وفا‘‘ سے اقتباس