Friday, 2024-04-19, 11:53 PM
TEHREER
The Place of Entertainment and knowledge
Welcome Guest | RSS
Site menu
Categories
غزلیات نظمیں
منتخب اشعار قطعات
Quotations انتخاب
Entries archive
Recent Blogs-->
Recent Comments-->
I can only imagine how much research has gone into this. I like your writing skills as it makes one feel included in the journey. Thank you for the valuable notes.I enjoy kinds very own post. It will be respectable to get a single narrative inside and outside of the core of this distinctive core specialized niche will likely be commonly knowledgeable.
https://www.ilmkidunya.com/9th-class/roll-number-slips.aspx

thnx inam

hahahah

Thnx inam

hahah nice

Our poll
Rate my site
Total of answers: 24
Main » 2011 » December » 25 » Sony ki rishwat
12:43 PM
Sony ki rishwat
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سےانکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔


اس کی دردناک بِپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جُزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔
ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا۔" بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔" بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبردار سے پوچھا " کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"
نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔
یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

شہاب نامہ ، ڈپٹی کمشنر کی ڈائری، سے اقتباس
Category: انتخاب | Views: 685 | Added by: Crescent | Rating: 0.0/0
Total comments: 0
Only registered users can add comments.
[ Registration | Login ]
Search
Login In
Recent Posts-->
Popular Threads-->
Recent Photos-->
Poetry blog
Copyright Tehreer © 2024